Urdu Stories

Urdu Stories


تایا ابو نے بہت شوق سے گھر بنوایا تھا، مگر شومئی قسمت کہ وہ
 اس میں رہ نہ پائے، جونہی یہ خوبصورت مکان مکمل ہوا، تایا ابو ایک روز اچانک سیڑھیوں سے گر کر چل بسے۔ سبھی نے اس کو اتفاقی حادثہ جانا مگر تائی کہتی تھیں کہ یہ اتفاقی حادثہ نہیں ہے، یہ جگہ بھاری ہے کیونکہ مکان کی تعمیر کے دوران بھی دو مزدور وقتاً فوقتاً گر کر بری طرح زخمی ہو کر مرگئے تھے اور پھر شو ہر چل ہے۔ ان کے خیال میں یہ مکان منحوس تھا۔

 ایسا اکثر لوگ سوچتے ہیں اور کچھ لوگ ایسی باتوں کو واہمہ کہتے ہیں۔ بہر حال تائی اماں کو انہی واہموں اور وسوسوں نے گھر لیا تھا۔ تبھی وہ اس مکان کو فروخت کرنے کے درپے ہوئیں۔ انہوں نے والد صاحب کو بلا کر اپنا عندیہ بتایا۔ ابو نے سمجھایا کہ یہ مکان عمدہ اور اچھا بنا ہوا ہے۔ میرے مرحوم بھائی نے بہت شوق سے تعمیر کرایا ہے۔ یہ ان کی تقدیر کہ زندگی نے مہلت نہیں دی۔ میری مانو تو مکان فروخت کرنے کا خیال دل سے نکال دو کیونکہ دوبارہ ایسا گھر نہ بنا پاؤ گی۔ یہ بچوں کے کام آئے گا۔ ان کو سائبان سے محروم مت کرو۔ مگر تائی اماں اپنی بات پر اڑ گئیں. بولیں۔ تم کو اچھا لگتا ہے تو تم ہی مکان خرید لو۔ جو قیمت لگے بے شک اس سے کچھ کم دے دینا۔

 مگر میں اب اس میں نہ رہوں گی۔ یہ گھر ہم کو بہت پسند تھا مگر ہم خرید نہیں سکتے تھے کیونکہ تائی کی مسلسل ایسی باتوں نے امی کو بھی وہم میں ڈال دیا تھا۔ جب تائی بیمار پڑیں تو ان کے بیٹے نے یہ اونے پونے فروخت کر دیا۔ جس نے یہ خریدا وہ واپڈا میں ملازم تھا۔ اس کا نام نعیم اور بیوی کا ماریہ تھا۔ دونوں میاں بیوی بہت خوبصورت تھے اور چاند سورج کی جوڑی کہلاتے تھے۔ ان کی آپس میں محبت بھی بے مثال تھی۔ شروع دنوں میں دونوں بہت خوش تھے ، سال بعد خدا نے بیٹا دیا تو خوشی دوبالا ہوگئی۔ اب وہ ہمہ وقت بیٹے کی پرورش میں مگن رہنے لگی ۔ سرال والے زیادتی کرتے تو نظر انداز کر دیا کرتی کیونکہ بیٹے کی نعمت پا کر اس کو کسی کی پروانہ دہی تھی۔ اس نے بچے کا نام امید رکھا۔ جب امید کچھ بڑا ہو گیا تو ماریہ نے سوچا کہ کیوں نہ کوئی کام کروں۔

 اس نے بی اے کے ساتھ ساتھ بی ایڈ کا کورس کیا ہوا تھا۔ کچھ کوشش کے بعد اسکول میں نوکری مل گئی اور وہ ڈیوٹی پر جانے لگی۔ اس دن کے بعد سے اس کی زندگی کے برے دن شروع ہو گئے کیونکہ ملازمت کے ساتھ گھر کا کام پوری طرح نہیں کر پاتی تھی۔ ڈیوٹی سے آکر کچن سنبھالنے کی بجائے سیدھی اوپر اپنے کمرے میں چلی جاتی تا کہ تھوڑی دیر آرام کر سکے۔ بچہ چار سال کا تھا جس کو وہ ساتھ اسکول لے جاتی اور ساتھ لاتی۔ گھر آکر سب سے پہلے اس کے لئے آرام و خوراک کا بندوبست کرتی۔ یوں دوپہر سے شام ہو جاتی تب اپنے لئے کھانا لینے نیچے آتی۔ ساس اور جٹھانی منہ بناتیں کہ کماتی اپنے لئے ہے اور ہم کو نوکرانی سمجھ رکھا ہے۔

 کوئی کام نہیں کرتی ، اس کو مفت میں پکا پکایا کھانا چاہئے۔ روز روز ایسی باتیں سن کر وہ تنگ آگئی۔ ادھر ساس نندوں نے نعیم کے بھی کان بھرنے شروع کر دیئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بیوی سے بددل ہونے لگا جب گھر آتا کھانا ماں کے پاس سے لے کر کھاتا وہ کچھ نہ کچھ بات بیوی کے خلاف ضرور کہہ دیتی۔ جہاں انسان دو وقت کھانا کھاتا ہے وہیں بیٹھتا بھی ہے۔ نعیم اب صرف سونے کیلئے کمرے میں آتا، سارا وقت نیچے اپنی ماں اور دیگر گھر والوں کے پاس گزارتا۔ ماریہ نے کوئی شکوہ نہ کیا اس کی تو مجبوری تھی نوکری جو کرتی تھی۔ اسی اثناء میں وہ دوسرے بچے کی ماں بن گئی ، اب ذمہ داری اور بڑھ گئی۔ پہلے شوہر کے جو تھوڑے بہت کام کرتی تھی، اب نہیں کر سکتی تھی۔

 ماں، بیٹے کے سارے کام کر دیتی اور ماریہ صبر و شکر کر لیتی۔ جٹھانی نے کہنا شروع کر دیا کہ ایسی بہو لانے کا کیا فائدہ الٹا ہم ان کے کام کریں ، ان کے شوہر کے کام بھی کریں، بہتر ہے کہ یہ میاں بیوی الگ ہو جائیں۔ سسر نے معاملہ بڑھتا دیکھ کر نعیم اور ماریہ کو الگ کر دیا۔ جس پر ماریہ نے کوئی اعتراض نہ کیا، البتہ وہ کھانا گھر میں بہت کم پکاتی اور زیادہ تر باہر سے لے آتی تھی۔ شوہر کو اعتراض تھا کہ باہر کا کھانا روز نہیں کھا سکتا، لہذا اب بھی اس کا زیادہ وقت ماں بہن بھائیوں میں گزرتا۔ کھانا وہ ماں کے گھر کھاتا۔ دوسرے بچے کی پیدائش پر ماریہ کا کام اور بڑھ گیا اور وہ بالکل گھر اور گھر والوں سے کٹ کر رہ گئی۔ سبھی نے سکھ دیکھ میں اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ایک طرح سے وہ غیر اور اجنبی ہو کر رہ گئی تھی۔ شوہر گھر پہ نہ ہوتا، بچہ بیمار ہو جاتا۔ 

کوئی نہ پوچھتا صرف سر ہی وہ ہستی تھے جو دکھ سکھ میں اس مصروف بہو کا خیال کرتے اور بیمار بچوں کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتے تھے۔ ماریہ ایک ملازم پیشہ عورت تھی مگر کوئی اس کی مجبوریاں نہیں سمجھتا تھا۔ اپنی تنخواہ میں سے تھوڑا ساحصہ کچن میں ڈالتی تھی ، باقی جمع کرتی تھی اپنے اور بچوں کے اخراجات کی مد میں بھی رقم صرف کر دیا کرتی- جب اسے الگ کر دیا گیا اس نے کچن کا خرچہ دینا بند کر دیا اور نعیم سے کہا تمہاری مرضی اپنی تنخواہ میں سے جتنا چاہو گھر والوں کو دو، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا مگر میں محنت و مشقت اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر کر رہی ہوں۔ اپنا کھانا بھی باہر سے منگواتی ہوں، لہذا اب میں ساس کو کچن کا خرچہ نہ دوں گی۔

 سسر نے پوچھا کہ بیٹی ماریہ تم نے اتنے سال ملازمت کی ہے، کیا کچھ جوڑا بھی ہے۔ اس نے بتایا ہاں اباجی میں نے کافی بچت کی ہے۔ کتنے روپے ہوں گے؟ پانچ لاکھ ابا جی کچھ رقم امی ابو نے دی تھی ، وہ بھی شامل ہے۔ ٹھیک ہے بیٹی باقی رقم کا میں بندوبست کئے دیتا ہوں اگر کچھ کم پڑا تو لون لے لیں گے۔ میں تمہارے لئے کوئی مکان تلاش کرتا ہوں تم کرائے کے مکان میں رہنے کی بجائے اپنے مکان کی مالک ہو جاؤ تو بہتر ہوگا کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہاں تمہارا گزارا خاصا مشکل ہو گیا ہے۔ یوں انہوں نے جو گھر نعیم اور ماریہ کے لئے تلاش کیا وہ ہمارے تایا ابو کا مکان تھا جو خوبصورت اور عمدہ بنا ہوا تھا مگر تائی اماں کے وہم کی وجہ سے اونے پونے بک رہا تھا۔ 

ماریہ اور نعیم اتنا اچھا گھر ملنے پر خوش تھے لیکن محلے کی عورتوں نے ماریہ کو بہت عجیب و غریب باتیں بتائیں، وہ بیچاری ڈرگئی اور اس نے گیارہ دن تک روز گھر میں سورہ یسین پڑھوائی۔ وہ ہر روز تمام محلے والیوں کو بلانے ان کے گھر جاتی اور خوشی خوشی اپنے گھر پڑھائی کے لئے بلاتی رہی۔ یوں ہمارے گھر تبھی وہ آئی۔ ماریہ بہت پیار سے بولنے 
والی عورت تھی۔ نعیم بھی نہایت ادب و انکساری سے بات کرتا تھا۔ دونوں میاں بیوی ہر ایک کے ساتھ خلوص سے ملتے۔ ماریہ اب بھی اسکول پڑھانے جاتی تھی وہ پھر امید سے ہو گئی تو ڈیوٹی پر جانا مشکل ہو گیا۔ گھر داری بھی سنبھالنی تھی۔

 سرال اور میکے سے کوئی اس کا حال دریافت کرنے نہیں آتا تھا۔ البتہ کبھی کبھی سسر اپنے پوتوں سے ملنے آجاتے تھے۔ یہاں ان کو آئے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ ایک دن معلوم ہوا کہ نعیم نے ماریہ کو مارا ہے۔ مگر کسی نے بات نہ کی، یہ سوچ کر کہ یہ ان کے اپنے گھر کا معاملہ ہے۔ ماریہ نے فون کر کے سسر کو بلوایا اور کہا کہ نعیم کو سمجھائیے ، آپ کے بیٹے نے اس حالت میں مجھے مارا ہے جبکہ بچے کی پیدائش کے دن قریب ہیں، ایسے میں میری جان بھی جاسکتی تھی۔ باپ نے بیٹے کو تنبیہ کی کہ آئندہ بہو پر ہاتھ نہ اٹھانا ورنہ یہ مکان ماریہ کے نام ہے۔ میں تم کو کان سے پکڑ کر نکال باہر کروں گا۔ ابھی اس واقعہ کو پندرہ دن گزرے تھے کہ ایک عجیب واقعہ ہوا۔

 ماریہ کے سسر مکان کی چھت پر کچھ رکھنے گئے اور جب وہ سیڑھیاں اتر رہے تھے، ان کا پاؤں پھسل گیا وہ گر پڑے اور اسپتال میں چند دن رہ کر فوت ہو گئے۔ یہ ایسا واقعہ تھا جس نے سبھی کو ہلا کر رکھ دیا۔ بالکل ایسی ہی موت سیڑھیوں پر سے پھسلنے کی وجہ سے ہمارے تایا ابو کی بھی ہوئی تھی۔ خیر ہم نے تو چپ سادھ لی مگر محلے والے کب چپ رہنے والے تھے، انہوں نے ماریہ اور نعیم کو کہا کہ یہ سیڑھیاں آسیب زدہ ہیں۔ مالک مکان کے علاوہ دو مزدور بھی گر چکے ہیں اور اب یہ چوتھا واقعہ ہے، بہتر ہے یہ مکان فروخت کر دیں یا پھر سیٹرھیاں بند کرا دیں اور چھت پر نہ جائیں، غالباً وہاں جن رہتے ہیں۔

 ماریہ نے اس واقعہ کو خدا کی مرضی کہہ کر نظر انداز کر دیا مگر نعیم کو وہم ہو گیا۔ مکان تو فروخت نہ ہو سکا البتہ اس نے سیڑھیاں بند کرا دیں۔ ماریہ اب بہت اداس اور چپ چپ رہنے لگی تھی۔ پہلے جب اس کا جی گھبراتا تھا وہ چھت پر چلی جاتی تھی اور سکون مل جاتا تھا لیکن اب سیڑھیوں کے آگے دیوار آجانے سے اوپر جانے کا رستہ ہی بند کردیا گیا تھا۔ ماریہ کو سر کے وفات پانے کا از حد دکھ ہوا کیونکہ ایک وہی شخص اس کا ہمدرد و غمگسار تھا وہ بھی چل بسا وہ اپنا دکھ درد کسی سے نہیں کہہ سکتی تھی۔ جب کوئی اچھا پیار کرنے والا انسان چل بستا ہے تو دیکھ ہوتا ہی ہے۔

 وقت کے دھارے میں وہ بہتی رہی۔ خدا جانے ماریہ کی قسمت کیسی تھی وہ اپنے گھر کی خاطر ملازمت کر رہی تھی ، دوہرے عذاب سہہ رہی تھی۔ نعیم کو اس بات کی قدر نہ تھی۔ وہ بات بات پر اس پر برس پڑتا تھا کہ ایسی ملازمت کا کیا فائدہ جب بیوی ہوتے ہوئے مجھ کو سکون نہیں ہے۔ اس سے اچھا تھا کہ تم ملازمت نہ کرتیں گھر بیٹھ جاتیں۔ جب بیٹی ردا پیدا ہوگئی اور تین بچوں کو سنبھالنا مشکل ہوا تو اس نے لمبی چھٹی لے کر ڈیوٹی کو خیر باد کہہ دیا اور گھر بیٹھ گئی۔ تب نعیم کو اور بے چینی رہنے لگی۔ وہ کہتا تھا واقعی یہ گھر منحوس ہے جونہی گھر میں قدم رکھتا ہوں مجھے کچھ ہونے لگتا ہے باہر اچھا بھلا ہوتا ہوں ہنستا بولتا ہوں ، طبیعت ہلکی پھلکی ہوتی ہے لیکن جو نہی گھر آتا ہوں دماغ گھومنے لگتا ہے ۔

 کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی میرے اندر گھس کر مجھے توڑ رہا ہو اور کبھی مجھے کوئی اکساتا ہے کہ میں کسی کو ماروں، کسی کا قتل کر دوں۔ ایسی باتیں سن کر ماریہ دم بخودرہ جاتی تھی۔ سوچتی تھی کہیں نعیم کا دماغ نہ پلٹ جائے۔ میں یہاں بچوں کے ساتھ اکیلی رہتی ہوں، جانے یہ گھر آسیب زدہ ہے یا نہیں مگر نعیم ضرور دماغی طور پر بہک گیا ہے ورنہ اچھا بھلا تھا، اب کیوں بات بات پر الجھتا ہے اور مارنے کو دوڑتا ہے۔ سسر بھی فوت ہو گئے تھے شکایت کس سے کرتی, کوئی سہارا نہ رہا تھا۔ کبھی ہمارے گھر آ کر امی سے دکھ بیان کر جاتی تھی۔

 اب نعیم کا معمول بن گیا تھا بیوی کو مارنا پیٹنا۔ بیچارے چھوٹے چھوٹے بچے ماں کو اس طرح پیٹتا دیکھ کر بہت روتے بلکتے تھے۔ بعد میں چپ ہو جاتے تھے ۔ ایک دن رات کو نعیم نشے میں تھا یا جانے کیا بات تھی اس نے ماریہ کو بہت مارا۔ اس کے گلے میں کیبل کا تارڈال کر اسے ختم کرنا چاہا مگر ہاتھ پیر چلا کر ماریہ نے خود کو بچالیا۔ رات کی چیخ پکار پر محلے والے غصے میں تھے اور صبح وہ سب نعیم کے گھر پہنچ گئے ۔ انہوں نے ماریہ کو نعیم کی گرفت سے نکالا اور اسے برا بھلا کہا کہ یہاں سے نکل جاؤ ۔ ہم تم جیسے آدمی کو اپنے محلے میں نہیں۔ رکھ سکتے۔

 اس وقت اس نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لی اور کہا کہ میں آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تم کو آخری بار کہتے ہیں کہ اگر آئندہ ایسا ہوا تو ہم سے برا کوئی نہ ہوگا۔ اس دن شام کو نعیم خود ہی کسی بابا کے پاس گیا اور اپنے لئے پانی دم کرا کر لے آیا۔ ماریہ سے معذرت کی کہ خدا جانے مجھے کیا ہو جاتا ہے۔ میں تم کو مارنا نہیں چاہتا لیکن جب مارتا ہوں خود مجھے پتہ نہیں ہوتا کہ کیا کر رہا ہوں۔ بابا نے کہا ہے کہ یہ گھر آسیب زدہ ہے اور وہ یہاں دم کرنے آئیں گے۔ ماریہ نے ان باتوں پر دھیان نہ دیا کیونکہ اب ایسا عالم ہو گیا تھا کہ وہ نعیم سے نفرت کرنے لگی تھی۔

 دوسرے دن وہ ماریہ اور بچوں کو گھمانے گاؤں لے گیا، نہر پر ماریہ کو دھکا دیا تا ہم وہ سنبھل گئی اور فوراً کنارے پر بیٹھ گئی اس طرح پانی میں گرنے سے بچ گئی۔ تب ٹیم نے اس کے پاؤں پکڑ کر معافی مانگی کہ اس نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا ۔ ماریہ اب ہمارے گھر نہیں آتی تھی۔ وہ کسی کے گھر بھی نہیں جاتی تھی۔ تبھی امی کبھی کبھی خیریت معلوم کرنے چلی جاتی تھیں۔ کہیں نعیم نے اس کو پھر مارا تو نہیں ہے۔ امی ابو اور دوسرے محلے والے اسے بہت سمجھاتے تھے اور وہ مان بھی جاتا تھا۔ ایک دن ہفتہ تھا اور ہم سوچ کر سوئے تھے کل دیر سے اٹھیں گے کیونکہ اگلے روز اتوار تھا۔ 

اس روز ہم رات کو یہ ارادہ کر کے سوئے تھے۔ خدا کی کرنی کہ اس دن صبح چھ بجے ہی محلے میں شور مچ گیا کہ نعیم ماریہ کو باہر سڑک پر مار رہا ہے اس سے پہلے ہمارے محلے میں کبھی ایسی بات نہیں ہوئی تھی۔ محلے میں ہل چل مچ گئی۔ ماریہ کے گھر کے سامنے یہ تماشا ہوا ، اسکی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی اس کو اتنا مارا تھا کہ کپڑے پھٹ گئے تھے۔ یہ عالم کہ اللہ معاف کرے۔ اسے محلے کے ایک بزرگ اپنے گھر لے گئے اور سب محلے داروں نے مل کر نعیم سے کہا کہ جا کر اپنے بڑوں کو بلا کر لاؤ۔ وہ بچوں کو لیکر ماں کے گھر چلا گیا۔ مکان کو تالا لگا گیا۔ بزرگوں نے پوچھا۔ ماریہ بتاؤ تم کیا چاہتی ہو۔ 

وہ بولی گھر آباد رکھنا چاہتی تھی مگر نعیم کو یہ دورے پڑتے ہیں کہ بے بات مارنے لگتا ہے اس طرح تو یہ میری جان لے لے گا۔ میں نے بہت برداشت کیا ہے، اب یہ سب کچھ میری برداشت سے باہر ہے۔ میں اس سے فیصلہ چاہتی ہوں لیکن بچے مجھے دلوا دیں۔ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ نعیم کا بڑا بھائی آگیا۔ سب نے اس کو لعن طعن کی کہ جب سے یہ لوگ یہاں آئے ہیں آپ لوگوں میں سے کوئی ان کا حال احوال جاننے نہیں آتا۔ ایسی سنگ دلی ٹھیک نہیں۔

 خیر پھر سب نے مل ملا کر ماریہ اور نعیم کی صلح کرا دی اور اس نے قرآن پر حلف دیا کہ وہ اب اپنی بیوی کو نہ مارے گا۔ ایک دن ان کے گھر سے کچھ توڑنے کی آواز آئی۔ ہم نے پتہ کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ اپنے گھر کی سیٹرھیاں توڑ رہا ہے کیونکہ چھت پر دوسری منزل تعمیر کرانا چاہتا ہے تا کہ ماریہ اکیلی نہ رہے۔ نئی منزل کو کرایہ پر اٹھانے سے معقول آمدنی بھی ہو جائے گی۔ اس دن جمعرات تھی۔ پہلے وہ مزدور لینے گیا مگر مزدور نہ ملا تو بڑا سا ہتھوڑا لا کر خود ہی سیٹرھیوں کے آگے کی دیوار توڑ دی جو خود اس نے بنوائی تھی۔

 پھر چھت پر گیا۔ اسی دن شام کو ان کے گھر کی بجلی چلی گئی۔ تار والا کھمبا چھت کی منڈیر کے پاس تھا۔ وہ واپڈا کا ملازم تھا۔ بجلی کے تار ٹھیک کرنے کا کام کرتا تھا ۔ پس اس نے خود ہی بجلی کے کھمبے پر چڑھ کر تار ٹھیک کرنے کی ٹھان لی۔ جب وہ بجلی کے تاروں کو گھر سے پیچھے ہٹا رہا تھا تو سارے محلے کی لائٹ بند ہوگئی۔ سخت گرمی میں میرے منہ سے نکلا اللہ کرے یہ بجلی والے مر جائیں۔ اتنی گرمی ہے اور پنکھا بند ہو گیا ہے۔ امی نے مجھے ڈانٹا کہ ایسا نہیں کہتے ۔ اچانک باہر شور کی آواز سنائی دی۔ 

پتہ چلا کہ نعیم کھمبے پر چڑھا بجلی ٹھیک کر رہا تھا کہ اس کے کمر کے گرد پڑی بیلٹ ڈھیلی ہو گئی اور وہ اوپر سے گر گیا، گرتے ہی سر پھٹ گیا اور اللہ کو پیارا ہو گیا۔ آن کی آن میں محلے والے اکٹھے ہو گئے۔ ہم بھی گئے اسکی میت رکھی تھی۔ لگتا جیسے اس کو کسی نے گلا دبا کر مارا ہے۔ آنکھیں ابھری ہوئی اور کھلی تھیں اور ان کے گرد نیل پڑے ہوئے تھے سر پچک گیا تھا۔ ماریہ عورتوں کے بیچ ایسے بیٹھی تھی جیسے آنکھوں کے آنسو ختم ہو گئے ہوں ، البتہ نعیم کی ماں اور بہنیں بلک بلک کر رو رہی تھیں۔ تین دن بعد ماریہ کا گھر خالی ہو گیا۔

 سرال والے دوبارہ نہیں آئے ، بچوں کی بھی فکر نہ کی جیسے وہ ان کے کچھ نہ لگتے ہوں۔ اب ماریہ اپنے بچوں کے ساتھ اکیلی گھر میں رہتی ہے۔ وہ نوکری کرتی ہے اس کے گھر کی تعمیر ویسے ہی رکی ہوئی ہے۔ کسی نے بکھرا ہوا ملبہ تک نہیں اٹھایا۔ آج بھی اینٹیں اسی جگہ اسی طرح بکھری ہیں جس طرح پہلے بکھری ہوئی تھیں۔ اس پر بڑی ذمہ داری ہے۔ تنہا زندگی کا سفر بہت لمبا ہے۔ معلوم نہیں اسے نعیم سے شادی کر کے کیا ملا؟

Post a Comment

0 Comments